Jalalpur Bhattian

Jalalpur Bhattian (Urdu: جلال پُور بهٹياں), is a city in the Hafizabad District of Pakistan. It is noted for its rice production some of its famous rice mills are Hasan corporation , Dhodhal Rice Mills, White pearl, Mazco and some others.[1] Jalalpur Bhattian is located 5 kilometres (3.1 mi) southeast of the Chenab River, 96.2 kilometres (59.8 mi) by road northeast of [[

Jalalpur Bhattian

جلال پوربھٹیاں
Location on Hafizabad road from Pindi Bhattian
Coordinates: 32°03′52″N 73°22′37″E
CountryPakistan
ProvincePunjab
DistrictHafizabad District
DivisionGujranwala Division
Government
Population
 (2004)
24,750
Postal code
52170
Area code(s)0547

(((جلالپوربھٹیاں کی تاریخ ))))

قصبہ جلالپوربھٹیاں حافظ آباد سے تقریبا 38کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،جنوب مغرب میں پنڈی بھٹیاں(موٹروے انٹرچینج پنڈی بھٹیاں)سے اسکافاصلہ 21کلومیٹرہے۔مغرب کی طرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے چناب بہتاہے،جلالپوربھٹیاں کی قدامت اور وجہ تسمیہ کے متعلق کئی روایات بیان کی جاتی ہیں،رپورٹ کے مطابق کہاجاتاہے کہ اس قصبہ کی بنیاد جلال الدین خلجی کے دور میں 1290ءاور1295ءکے درمیان رکھی گئی،جلاالدین کی نسبت سے اسکا نام جلالپور مشہور ہوگیا۔ موجودہ جلالپوربھٹیاں (جلالپور کہنہ) کی تباہی کے بعد ایک نئی آبادی کے طور پر تقریبا تین صدیاں قبل معرض وجود میں آیا،یہی وجہ ہے کہ محکمہ مال اور محکمہ ڈاک کے ریکارڈ میں اسے آج بھی جلالپور نولکھاجاتاہے۔البتہ یہاں بھٹی برادری کی بااثر آبادی کے قیام اور انکے احترام کے باعث عام لوگوں میں اسے جلالپوربھٹیاں کہاجانے لگا اور یہی نام مشہور ہوتاگیا،اس نئی آبادی کی بنیاد مغلوں کے عہدمیں یار محمدبھٹی نے رکھی اور ابتداءمیں اسکا نام کوٹ یارمحمدرکھاگیامگر چونکہ اس سے قبل اسکے نواح میں قصبہ جلالپور کہنہ موجود رہاتھا اس لیئے اسکانام جلالپور ہی مشہور ہوگیا۔اسی راستے کو شیر شاہ سوری نے ایک شاہراہ کی شکل دی جو جموں کوملتان سے ملاتی تھی،اس شاہراہ پر پڑاﺅ کی جگہ پرچوکی ،سرائے اور کنویں تعمیرکیئے گئے تھے،اکبر دور میں جب اکبرکے چچا زاد بھائی حکیم محمدمرزا نے بغاوت کاعلم بلند کیا اور لاہور سے قابل کارخ کیا اسی شاہراہ کے ذریعے وہ جلالپور سے گزراتھا،مغل دور میں یہاں قاضی کورٹ بھی قائم تھی،1802ءمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ اس پر حملہ آور ہوا ،قصبہ کو خوب لوٹااور مقامی مالکوں کو انکی ملکیت سے محروم کردیا۔بھٹی قبیلہ جھنگ چلاگیا،یہاں کھتری قابض ہوگئے،بالا آخر جب انگریزوں نے سردار چتر سنگھ اور شیر سنگھ اٹاریوالاکی سکوبی کیلئے کاروائی کی تو بھٹی قبیلہ ایک بارپھر آباد ہوگیا،اس زمانے میں یہ شہر ایک مضبوط فصیل میں گھراہواتھا،فصیل کے اردگرد ایک خندق کھودی گئی تھی جس میں قصبہ کافالتوپانی جمع ہوکرآگے برساتی نالے میں جاکر گرتاتھا۔اس برساتی نالے پر ایک قدیم پل آج بھی اپنی شکست وریخت کیساتھ موجودہے۔ جلالپونومیں انگریز ی دورحکومت میں لارڈپن کے زمانے میں 1888ءمیں میونسپل کمیٹی قائم ہوئی جو 1891ءمیں توڑدی گئی،1959ءمیں اسے یونین کونسل اور 1979ءمیں ٹاﺅن کمیٹی کادرجہ دیدیاگیا، جبکہ حال ہی 1951ءمیں جلالپور نو کو حافظ آباد اور پنڈی بھٹیاں سے پختہ سڑک کی تعمیر کے ذریعے ملادیاگیا،1952ءمیں دریائے چناب کے سیلابی پانی کوروکنے کیلئے پنڈی بھٹیاں سے براستہ جلالپور ،ونیکی تارڑ تک (بند)کی تعمیر کردی گئی اور اس بند پر ایک پختہ سڑک تعمیر کرکے جلالپور کو ونیکی تارڑ سے ملادیا،دوسری طرف ایک سڑک کے ذریعے اسے سکھیکی سے ملادیاگیا،جلالپوربھٹیاں میں مغل دور سے چلی آرہی غلہ منڈی آج ایک بڑی اور بین الا قوامی منڈی کاروپ دھار چکی ہے۔بزرگوں نے بتایاکہ اندرون غلہ منڈی (پرانی)میں سابق وائس چیئرمین بلدیہ اور رائس ایکسپورٹرحاجی عبدالستار ارائیں کے والدحاجی محمدنزیر ،حاجی امانت علی راجپوت،حاجی امام علی آرائیں،ملک محمدنزیرآف سولنگی،حاجی نبی بخش سیٹھ،شیخ نور محمد اور ڈاکٹر محمدامجد مرحوم کے والد محمدحسین وغیرہ چند افراد تھے جوآڑھت کاکاروبار کرتے تھے،1963ءکے قریب اسی پرانی غلہ منڈی میں پہلامالیاتی ادارہ حبیب بنک لمیٹڈ قائم ہوا۔ان بھلے وقتوں میں 9سے12روپے فی من مونجی باسمتی جبکہ گندم 13سے15روپے فی من فروخت ہوتی تھی ،دیہاتی کنوئیں سے فصلوں کوثیراب کرتے ہاتھوں سے ہل چلاتے اور گدھوں پر لاد کر منڈی میں لاتے تھے یہ ان دنوں کی بات ہے جب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے والد مرحوم چوہدری ظہورالٰہی تھانہ جلالپوربھٹیاں میں بطورمنشی(محرر)کام کرتے تھے اور اداکار عابد خان کے والد اسی تھانہ میں بطور ایس ایچ او کام کرتے تھے۔جلالپور بھٹیاں کی تاریخ میں یہ بھی شامل ہے کہ آج کے انڈین معروف فلمی اداکار ہرتیک روشن کے داداروشن داس قیام پاکستان سے قبل اس شہر کے بازار میں کپڑے کی دوکان چلایاکرتے تھے۔

جبکہ یہ اعزازبھی جلالپوربھٹیاں کوملاکہ اس شہر کانوجوان ملک منیر احمد وسیر کے صاحبزادے مُحّمد عثمان ملک نے ۲۰۱۵ میں پنجاب جوڈیشل سروس کے امتحان میں پنجاب بھر سے ٹاپ کیا اور اس وقت بطور سول جج اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں ۔ ایک اوراعزاز جو شیخ برادری کے بزرگ حاجی باواشیخ محمدرمضان کے فرزند ارجمند شیخ محمدصدیق نے پائلٹ بن کر پشاور سے سرگودھا جاتے ہوئے اپنے ہی شہر کے اوپر اپنا طیارہ اڑایااور بعدازاں مقابلہ کے امتحان کے ذریعے اسسٹنٹ کمشنرACبھرتی ہوگیا۔پھر مدینہ منورہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر حج بن کر ڈیوٹی دی اوربعدازاں ڈپٹی ڈائریکٹر انٹی کرپشن پنجاب ڈیوٹی دی ۔1977ءمیں یہاں نئی غلہ منڈی کاقیام عمل میں لایاگیا اورجہاں کبھی چھوٹے موٹے کاروبار ہوتے تھے وہاں لاکھوں کروڑوں اربوں کوکاروبار ہونے لگے اور اب یہ قصبہ ایک منی صنعتی شہر کی صورت میں چاول کی ایک بین الا قوامی منڈی بن چکاہے،یہاں کاچاول دنیابھر میں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاہے،یہاں 100کے قریب مونجی سے چاول بنانیوالے شیلر اور 50 کے قریب چاول کو ایکسپورٹ کوالٹی بنانیوالے پلانٹ نصب ہیں جہاں روزانہ 80ہزار سے زائد مزدور کام کرتے ہیں جبکہ ایک جوٹ مل بھی یہاں قائم ہے اس میں کئی سو افراد کام کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسری بار رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن پاکستان کاچیئرمین اسی شہر جلالپوربھٹیاں سے ہی منتخب ہواہے،پہلی مرتبہ حاجی محمداظہر اخترارائیں جبکہ دوسری مرتبہ ملک محمدجہانگیر کو(ریپ) کاچیئرمین بنایاگیاہے۔اور انہیں کے بھائی ملک محمدآصف کوجوٹ ملز ایسوسی ایشن پاکستان کاصدر بنایاگیا۔ مجموعی طور پر یہاں کی آبادی خوشحال ہے،آرائیں،بھٹی ،شیخ،ترکھان،موچی،قصائی ،نائی،مسلم شیخ ،کشمیری اور دیگر قومیں آباد ہیں،1881ءمیں اس شہر کی آبادی 2453، افراد تھی جبکہ 1998ءکی مردم شماری رپورٹ کے مطابق 21248،افراد پر مشتمل ہے،جو2747مکانات میں رہائش پزیر ہیں،ان میں سے 2360مکان پختہ ،38نیم پختہ اور 349کچے ہیں لیکن اس وقت اس شہر کی آبادی 30ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے ۔یہاں ایک سرہانیاں والادربار بھی موجود ہے جو جلالپور کہنہ روڈ پر واقع ہے جہاں لوگ سرہانیاں چڑھاکر منتیں مانتے ہیں ،جبکہ ایک خانقاہ نیامت علی شاہ کی بھی موجود ہے یہاں بھی ہرسال عرس میلہ لگتاہے،ایک دربار معصوماں پاک کے نام سے بھی ہے یہاں بھی ہرسال عرس میلہ لگتاہے،جلالپورکہنہ میں ایک قدیم مسجد اپنی شان وشوکت کیساتھ موجود ہے،جس کے متعلق بتایاجاتاہے کہ یہ جلا الدین خلجی دور کی تعمیر کردہ ہے،چند برس قبل محکمہ اوقاف نے اسکی تزئین نوکرکے اسے محفوظ بنانے کی کوشش کی تھی۔رپورٹ کے مطابق شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ سرائے کی جگہ پر جلالپور کاپولیس اسٹیشن بنایاگیا جسکی عمارت کو چندسال قبل گراکر نئی اور خوبصورت عمارت بنائی گئی،اس وقت جلالپوربھٹیاں(جلالپورنو)میں ایک یونین کونسل،ایک تھانہ،لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائی سکول،مڈل اور پرائمری سکول،گرلز اور بوائز ڈگری کالجز،مالیاتی اداروں(بنکوں)کی 12شاخیں حبیب بنک،نیشنل بنک،الائیڈبنک،مسلم بنک ، پنجاب بنک ، عسکری کمرشل بنک، یونائیٹڈبنک،سنہری بنک، تعمیربنک،یو بنک، زرعی بنک اورالفلاح بنک موجود ہیں۔ لیکن پبلک پارک کانام ونشان نہیں اور نہ ہی ڈاکخانے کو آج تک کوئی عمارت ملی ،ڈاکخانہ خانہ بدوشی کی زندگی گزاررہاہے۔جبکہ عام انتخابات 2008مےں پہلی بار اس شہر جلالپوربھٹیاں سے ایک ساتھ دوممبران صوبائی اسمبلی چوہدری محمداسداللہ ارائیں اور میاں شاہد حسین بھٹی ایوان میں پہنچے۔۔

References

  1. Business India. A.H. Advani. 2004. p. 120.

تاریخ جلال پُور بھٹیاں

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.